Sunday, 18 November 2012

ہم غُصَّے میں چیختے کیوں ہیں؟

0 تبصرے



'ہم غصّے میں چلاتے کیوں ہیں؟"
 
استاد نے شاگردوں سے پوچھا۔"لوگ جب پریشان ہوتےہیں تو ایک دوسرے پر کیوں چیختے ہیں؟"
 
شاگردوں نے کچھ دیر سوچا، پھر ان میں سے ایک نے کہا "کیوں کہ ہم اپنا سکون کھو دیتے ہیں ،اس لیئے چیختے ہیں"
" لیکن جب دوسرا آدمی ہمارے قریب بیٹھا ہوتا پھر چیخنے کا کیا تک ہے؟ کیا ہم 
اس سے ہلکی آواز  میں بات نہیں کر سکتے؟ چیخنے چلاتے کیوں ہیں؟"
 
 شاگردوں نے کچھ جواب دیئے لیکن کوئی بھی استاد کو مطمئن نہ کر سکا۔
 
آخرکار استاد نے کہا: "جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں، غصہ کرتے 
ہیں، تب ان کے دل دور ہوجاتے ہیں۔ اس فاصلے کو عبور کرنے کے لئے لوگوں کو چیخنا پڑتا ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کی آواز سن سکیں۔   وہ جتنا زیادہ غصہ ہوں  گے انہیں اتنا ہی چیخنا ہوگا تا کہ ان  کے دلو ں کے درمیان کا فاصلہ دور ہو سکے۔"
 
پھر استاد نے کہا" کیا ہوتا ہے جب لوگ ایک دو لوگ محبت کرتے ہیں؟ وہ ایک دوسرے پر چلاتے نہیں ہیں بلکہ آہستہ گفتگو کرتے ہیں، کیوں؟ اس لیئے کہ ان کے دل قریب ہوتے ہیں۔  ان کے دلوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا ہے۔
 
کیا ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں؟ وہ بولتے نہیں ہیں،ٖصرف سرگوشی کرتے ہیں جس  سے وہ  ایک دوسرے کے مزید قریب آجاتے ہیں۔
 
آخر میں انہیں سرگوشی کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ وہ صرف ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ۔ اور یہی ان کے لیئے کافی ہوتا  ہے۔  لوگ ایک دوسرے کا اتنے قریب ہوجاتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔"


یہ تحریر ترجمہ ہے ۔ اصل تحریر پائولو کوئیلو کی ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

Sunday, 20 May 2012

جہانِ معلوم

0 تبصرے
کتاب : جہانِ معلوم

شاعر : افتخار عارف

 کتاب کا انتساب افتخار عارف نے اپنی بیٹی گیتی،داماد کامران اور ان کے بچوّں اظہر اور زینب کے نام کیا ہے۔

اگلےصفحےپرحضرت علی  کا یہ قول درج ہے۔

"ہر شخص کی قیمت  وہ  ہنر  ہے  جو اس  شخص  میں   ہے"

کتاب میں ۷۴ غرلیں،نظمیں شامل ہیں۔آخر میں پروفیسر ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی کے دو اظہاریے، کچھ غزل اور افتخار عارف کے بارے میں' اور 'افتخار عارف کی نعت، شامل ہیں۔

فلیپ پر نیّر مسود، اختر الایمان،مشفق خواجہ اور جون ایلیاء کی رائے شامل ہے۔

جون ایلیاء لکھتے ہیں

 "یہ سالہاسال پہلے کی بات ہے کہ  میرے گردوپیش  ایک پرْخیا ل وقوعہ ظہورپذیر میں آیا۔ وہ میری بچھڑی ہوئ تہذیب کا وقوعہ تھا، وہ میری بچھڑی ہوئ تہذیب کاخْرسند ترین وقوعہ۔ اس کا نام تھا  افتخار عارف۔ افتخار عارف ایک شگفت آور شخص ہے۔ اس نے زندگی کو سمجھا اور جو زندگی کو نہیں سمجھتا  وہ مارا جاتا ہے۔اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ اس ۔۔۔۔۔زندگی کو خودکشی نہیں بنانا چاہتا۔ وہ برصغیر کی سب سے خیال انگیز،خیال آمیزاور ماجراخیز شائستگی کا مظہر ہے۔۔۔۔ ۔ میں تو کوئ بڑا شاعر نہیں ہوں۔ میرا بنیادی تعلق  تو فلسفے سے ہےلیکن اگر مجھے اپنی پیڑھی کا کوئ قابلِ ذکر شاعر سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ میری پیڑھی کے بعد سب سے نامدار شاعر افتخار عارف ہے۔ مجھ عاجز کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ افتخار عارف اس دور کا نادر ترین شاعر ہے۔ اب رہے اور شاعر تو وہ تاریخ ِ فن کا وقت ضائع کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔"

کتاب سے ایک شعر،نظم اور غزل۔۔۔

٭٭٭٭

سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی ہے

میں اتنی دورہوں اور مجھ کو وحشت ہو رہی ہے

٭٭٭٭

کْوچ

جس روز ہمارا کْوچ ہو گا

پْھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

شیریں  سخنوں کے حرف دشنام

بے مِہرزبانیں بند ہو گی

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہو گا

ہمواریِ ہر نفس سلامت

دل پر کوئ داغ تک  نہ ہو گا

پامالیِ خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہو گا

معبود اس آخری سفر میں

تنہائ کو سرخرو ہی رکھنا

جْز تیرے، نہیں کوئ نگہدار

اْس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رْلایا

اْس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

جس روز ہمارا کْوچ ہو گا

پْھولوں کی دْکانیں بند ہوں گی

٭٭٭٭

غیروں سے دادِ جوروجفا لی گئ تو کیا

گھر کو جَلا کے خاک اڑا دی گئ تو کیا

غارت گریِ شہر میں شامل  ہے کون کون

یہ بات  اہلِ شہر پہ کْھل بھی گئ  تو  کیا

اِک خواب ہی  تو تھا جو فراموش ہو گیا

اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا

میثاقِ اعتبار میں تھی اِک وَفا کی شرط

اِک شرط ہی تو تھی جو اٹھا دی گئ تو کیا

قانونِ باغبانیِ صحرا کی  سرنوشت

لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا

اس قحط  انہدامِ روایت کے عہد میں

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئ تو کیا

جب میؔر و میرزؔا کےسخن رائیگاں گئے

اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا

 ٭٭٭٭

Sunday, 29 April 2012

میری بیاض سے-01

0 تبصرے
سن 2005ء میں نے ایک اچھی سی نوٹ بک خریدی اور اسے بہ طور ڈائری استعمال کرنا شروع کیا۔زیادہ تر پسندیدہ شعر و شاعری لکھیخیال آیا ہےکہ کیوں نہ ریٹائرڈ ڈائری کو آن لائن کر دیا جاۓ۔تو اسی خیال کو عمل کا جامہ پہناتے ہوئے پہلی قسط میں حارث خلیق کی خوبصورت نظم حاضر ہے۔

ہاں مگر کیا واقعی بے آسرا ہوتے ہیں وہ؟
قلب میں جن کے ہوں آزادی کے خواب!
شہر کے یہ پا پیادہ لشکری
ان کے خوابوں اور عمل نے کتنی ہی صدیوں بعد
پھر سے دھارا ہے ابابیلوکا روپ
میں نے دیکھی ہے افق پر دور جو لمبی قطار
آ گ میں پکی ہوئ مٹی کی چھوٹی گولیاں
اپنی منقاروں میں تھامے 
آ رہی ہیں بے شمار
ابرہا اور اس کے ساتھی
یہ مہاوت اور سارے لشکری، اصحابِ فیل
آگ برساتی ابابیلوں کے آگے خاک ہوں گے
شہر کے یہ پا پیادہ لشکری بے باگ ہوں گے
ابرہا اور اس کے ساتھی
سب خس و خاشاک ہوں گے۔

                                                     (حارث خلیق)
 

Saturday, 21 April 2012

میری پہلی پوسٹ

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ میری پہلی پوسٹ ہے۔

اردو سے تعارف 

کیمپوٹر پر اردو لکھنے کے لئے ان پیج موجود تو تھا لیکن مجھے یہ سافٹ ویئر مشکل لگتا ہے۔ پھر گلوبل سائنس پر پاک اردو انسٹالر کے بارے میں مضمون پڑھا۔ اور فورا ڈاون لوڈ بھی کرلیا۔ یہ ایک بہترین پیکج ہے جس کے ڈاؤن لوڈ کرنےکا آپ کو اردولکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی گی۔

بلاگ سے تعارف

اردو بلاگنگ سے میرا تعارف اردو محفل اور اردو سیارہ سے ہوا۔ اردو سیارہ میں تو میلا لگا ہوا تھا بلاگرز کا۔ کچھ بلاگرز کو پڑھنا شروع کیا ۔ بلاگنگ کی تھوڑی سمجھ آئی تو اپنا بلاگ بنانے کا شوق چرایا۔

میرا بلاگ - عمرانیات

بلاگر پر بلاگ بنانا بہت آسان ہے۔پانچ منٹ میں بن جاتا ہے۔ لیکن میرے لیئے اصل مسئلہ اردو سانچے کا تھا۔ ارور ویب پر کچھ سانچے موجود ہیں لیکن اس ضمن میں محمد یاسرعلی نے بہترین کام کیا۔ ان کے بلاگ پر کافی اردو سانچے موجود تھے۔ ان کا بلاگ ڈیلیٹ ہو گیا تھا۔ ساتھ سانچے بھی۔ اب انہوں نے دوبارہ سانچے اپ لوڈ کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

 اس بلاگ پر کس قسم کی پوسٹ ہوں گی؟  میری دلچسپیوں میں مذہب، ادب،فلسفہ، سائنس آف سیکسِس، آئی ٹی اور وغیرہ وغیرہ شامل ہیں تو پوسٹس بھی انہی کے متعلق ہوں گی۔

 شکریہ 

اس بلاگ کے لیئے میں ایم بلال ایم (پاک اردو انسٹالر)، محمد یاسر علی (اردو سانچے) اور جہانزیب اشرف(سانچوں کا ترجمہ) کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اس بلاگ پر شیئر کی گئی مخولیات کی آدھی ذمہ داری میری اور باقی آدھی مندرجہ بالا صاحبان کے سر ہے۔