Showing posts with label جہانِ معلوم،افتخار عارف،شعر و شاعری. Show all posts
Showing posts with label جہانِ معلوم،افتخار عارف،شعر و شاعری. Show all posts

Sunday 20 May 2012

جہانِ معلوم

0 تبصرے
کتاب : جہانِ معلوم

شاعر : افتخار عارف

 کتاب کا انتساب افتخار عارف نے اپنی بیٹی گیتی،داماد کامران اور ان کے بچوّں اظہر اور زینب کے نام کیا ہے۔

اگلےصفحےپرحضرت علی  کا یہ قول درج ہے۔

"ہر شخص کی قیمت  وہ  ہنر  ہے  جو اس  شخص  میں   ہے"

کتاب میں ۷۴ غرلیں،نظمیں شامل ہیں۔آخر میں پروفیسر ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی کے دو اظہاریے، کچھ غزل اور افتخار عارف کے بارے میں' اور 'افتخار عارف کی نعت، شامل ہیں۔

فلیپ پر نیّر مسود، اختر الایمان،مشفق خواجہ اور جون ایلیاء کی رائے شامل ہے۔

جون ایلیاء لکھتے ہیں

 "یہ سالہاسال پہلے کی بات ہے کہ  میرے گردوپیش  ایک پرْخیا ل وقوعہ ظہورپذیر میں آیا۔ وہ میری بچھڑی ہوئ تہذیب کا وقوعہ تھا، وہ میری بچھڑی ہوئ تہذیب کاخْرسند ترین وقوعہ۔ اس کا نام تھا  افتخار عارف۔ افتخار عارف ایک شگفت آور شخص ہے۔ اس نے زندگی کو سمجھا اور جو زندگی کو نہیں سمجھتا  وہ مارا جاتا ہے۔اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ اس ۔۔۔۔۔زندگی کو خودکشی نہیں بنانا چاہتا۔ وہ برصغیر کی سب سے خیال انگیز،خیال آمیزاور ماجراخیز شائستگی کا مظہر ہے۔۔۔۔ ۔ میں تو کوئ بڑا شاعر نہیں ہوں۔ میرا بنیادی تعلق  تو فلسفے سے ہےلیکن اگر مجھے اپنی پیڑھی کا کوئ قابلِ ذکر شاعر سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ میری پیڑھی کے بعد سب سے نامدار شاعر افتخار عارف ہے۔ مجھ عاجز کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ افتخار عارف اس دور کا نادر ترین شاعر ہے۔ اب رہے اور شاعر تو وہ تاریخ ِ فن کا وقت ضائع کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔"

کتاب سے ایک شعر،نظم اور غزل۔۔۔

٭٭٭٭

سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی ہے

میں اتنی دورہوں اور مجھ کو وحشت ہو رہی ہے

٭٭٭٭

کْوچ

جس روز ہمارا کْوچ ہو گا

پْھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

شیریں  سخنوں کے حرف دشنام

بے مِہرزبانیں بند ہو گی

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہو گا

ہمواریِ ہر نفس سلامت

دل پر کوئ داغ تک  نہ ہو گا

پامالیِ خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہو گا

معبود اس آخری سفر میں

تنہائ کو سرخرو ہی رکھنا

جْز تیرے، نہیں کوئ نگہدار

اْس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رْلایا

اْس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

جس روز ہمارا کْوچ ہو گا

پْھولوں کی دْکانیں بند ہوں گی

٭٭٭٭

غیروں سے دادِ جوروجفا لی گئ تو کیا

گھر کو جَلا کے خاک اڑا دی گئ تو کیا

غارت گریِ شہر میں شامل  ہے کون کون

یہ بات  اہلِ شہر پہ کْھل بھی گئ  تو  کیا

اِک خواب ہی  تو تھا جو فراموش ہو گیا

اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا

میثاقِ اعتبار میں تھی اِک وَفا کی شرط

اِک شرط ہی تو تھی جو اٹھا دی گئ تو کیا

قانونِ باغبانیِ صحرا کی  سرنوشت

لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا

اس قحط  انہدامِ روایت کے عہد میں

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئ تو کیا

جب میؔر و میرزؔا کےسخن رائیگاں گئے

اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا

 ٭٭٭٭