Saturday, 13 July 2013

شیطان اپنے ہتھیار بیچتا ہے

0 تبصرے
دور نو کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے شیطان نے فیصلہ کیا کہ پرانے ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیا  اور سارا دن خریدار بھگتاتا رہا۔

ہتھیار شاندار تھے۔ایک ایسا پتھر جو نیک لوگوں کے قدم ڈگمگا دیتا تھا، ایک آئینہ جو آپکا خبطِ عظمت بڑھا دیتا تھا اور ایسے چشمے جو دوسروں کی اہمیت کم کر دیتے تھے۔ کچھ ہتھیار جو دیوار پر آویزاں تھے ، کافی توجہ  حاصل کر رہے تھے۔ ایک تیز دھار خنجر، دوسروں کی پیٹھ میں گھونپنے کے لئے۔ ایک ٹیپ ریکارڈر جو صرف افواہوں اور جھوٹ کو ریکارڈ کرتا تھا۔

''قیمت کی فکر نہ کریں شیطان نے امکانی خریداروں کو کہا۔"جو پسند آئے گھر لے جائیں اور جب چاہیں قیمت ادا کر دیں۔ " ایک آدمی نے محسوس کیا کہ کونے میں پڑے تین ہتھیار، جو کہ کافی بوسیدہ تھے، زیادہ توجہ حاصل نہیں کر رہے تھے۔ حالاں کہ وہ کافی مہنگے تھے۔ اسے اس ظاہری تضاد کی وجہ جاننے کا اشتیاق ہوا۔

''وہ بوسیدہ ہیں کیوں کہ  میں انہیں سب سے زیادہ استعمال کرتا ہوں''۔شیطان نے ہنستے ہوئے کہا''اگر یہ زیادہ توجہ حاصل کرتے تو لوگوں کو خود کو بچانے کا طریقہ پتہ چل جاتا۔
لیکن میں ان تینوں کی صحیح قیمت مانگ رہا ہوں۔ ان میں سے ایک شک ہے، دوسرا احساس کمتری اور تیسرا ہے تلخی۔ دوسرے سارے بہکاوے ناکام ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ تین ہمیشہ کام کرتے ہیں۔ "

یہ تحریر ترجمہ ہے ۔ اصل تحریر پائولو کوئیلو کی ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

Wednesday, 26 December 2012

جیئے جانے کے قابل زندگی

1 تبصرے

ابن العصرایک لڑکا تھا جب اس نے اپنے والد کی ایک درویش کے ساتھ گفتگو سنی۔

"اپنا کام دھیان سے کرو۔" درویش نے کہا" سوچو اگلی نسلیں تمہارے بارے میں کیا کہیں گی”

 ''مجھے کیا "ابن العصر کے والد نے کہا" میرے مرنے کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ دوسرے کیا کہیں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا"

ابن العصر نے  یہ گفتگو ہمیشہ  یاد رکھی۔

پوری زندگی ابن العصر نے کوشش کی کہ وہ  اچھے کام کرے، لوگوں کےکام آئے۔ وہ لوگوں میں اپنی اس خدا ترسی کی وجہ سے مشہور ہو گیا۔ اپنی موت کے وقت اس نے بہت سی ایسی چیزیں  چھوڑی جس سے لوگوں کی زندگی میں بہتری  آئی۔


اپنے کتبے پہ اس نے یہ الفاظ تحریر کروائے  " وہ زندگی جو موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے، جیئے جانے کے قابل نہیں۔"

اصل تحریر یہاں دیکھیں۔

Sunday, 18 November 2012

ہم غُصَّے میں چیختے کیوں ہیں؟

0 تبصرے



'ہم غصّے میں چلاتے کیوں ہیں؟"
 
استاد نے شاگردوں سے پوچھا۔"لوگ جب پریشان ہوتےہیں تو ایک دوسرے پر کیوں چیختے ہیں؟"
 
شاگردوں نے کچھ دیر سوچا، پھر ان میں سے ایک نے کہا "کیوں کہ ہم اپنا سکون کھو دیتے ہیں ،اس لیئے چیختے ہیں"
" لیکن جب دوسرا آدمی ہمارے قریب بیٹھا ہوتا پھر چیخنے کا کیا تک ہے؟ کیا ہم 
اس سے ہلکی آواز  میں بات نہیں کر سکتے؟ چیخنے چلاتے کیوں ہیں؟"
 
 شاگردوں نے کچھ جواب دیئے لیکن کوئی بھی استاد کو مطمئن نہ کر سکا۔
 
آخرکار استاد نے کہا: "جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں، غصہ کرتے 
ہیں، تب ان کے دل دور ہوجاتے ہیں۔ اس فاصلے کو عبور کرنے کے لئے لوگوں کو چیخنا پڑتا ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کی آواز سن سکیں۔   وہ جتنا زیادہ غصہ ہوں  گے انہیں اتنا ہی چیخنا ہوگا تا کہ ان  کے دلو ں کے درمیان کا فاصلہ دور ہو سکے۔"
 
پھر استاد نے کہا" کیا ہوتا ہے جب لوگ ایک دو لوگ محبت کرتے ہیں؟ وہ ایک دوسرے پر چلاتے نہیں ہیں بلکہ آہستہ گفتگو کرتے ہیں، کیوں؟ اس لیئے کہ ان کے دل قریب ہوتے ہیں۔  ان کے دلوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا ہے۔
 
کیا ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں؟ وہ بولتے نہیں ہیں،ٖصرف سرگوشی کرتے ہیں جس  سے وہ  ایک دوسرے کے مزید قریب آجاتے ہیں۔
 
آخر میں انہیں سرگوشی کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ وہ صرف ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ۔ اور یہی ان کے لیئے کافی ہوتا  ہے۔  لوگ ایک دوسرے کا اتنے قریب ہوجاتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔"


یہ تحریر ترجمہ ہے ۔ اصل تحریر پائولو کوئیلو کی ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔